مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر جمعیۃعلماء آسام کے وفدکی پرتیک ہزیلاسے ملاقات ، ایک میمورنڈم بھی سونپا
:(نئی دہلی:6 ؍اگست(ماکزیم نیوز
این آرسی سے چالیس لاکھ افراد کو نکال باہر کئے جانے پر جہاں دہلی میں سیاست گرم ہے وہی آسام کے لوگوں میں خوف وہراس کا ماحول قائم ہے اسی دوران صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر صدرجمعیۃعلماء آسام مولانا مشتاق عنفر نے جمعیۃعلماء آسام کی ایک ٹیم کے ساتھ این آرسی اسٹیٹ کوآڈینیٹر پرتیک ہزیلا سے ملاقات کی ہے اور انہیں ایک طویل میمورنڈم سونپا ،جس میں کہا گیا ہے کہ 30؍جولائی کو جاری شدہ این آرسی میں جن لوگوں کو شامل نہیں کیاگیا ہے انہیں فردافردا بذریعہ خط یہ بتایا جائے کہ ان کا نام کس وجہ سے شامل نہیں ہوا ، دوسرے یہ کہ آبجکشن آف کلیم کے عمل کے دوران لوگ جو دستاویزات جمع کرائے انہیں اس کی رسید دی جائے ، یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ جب سماعت ؍تصدیق کا عمل شروع ہو تومقررہ تاریخ سے کم ازکم دس روز قبل تمام متاثرین کو اس کی اطلاع دی جائے اور اس کے بعد ہی سماعت کا آغاز ہو کیونکہ این آرسی کی تیاری کے دوران اسی خامی کی وجہ سے بہت سے لوگ مقررہ تاریخ پر اپنی شہریت کی تصدیق کے لئے حکام کے پاس نہیں پہنچ سکے ، یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ آن لائن نوٹس نہ کی جائے کیونکہ ایک بڑی آبادی غیر تعلیم یافتہ اور انٹر نیٹ سے دور ہے اس بات پر بھی زوردیا گیا کہ ہر سماعت کی ویڈیوگرافی کرائی جائے تاکہ کسی بھی طرح کی خامی اور جانبداری کا امکان نہ رہ جائے اور اگر ضرورت پڑے تو تصدیق کے لئے اس ویڈیوکو ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ خاندانی شجرے کا پتہ لگانے کے لئے زبانی شہادت کو قابل قبول تصورکیا جائے اور اس تعلق سے خاندان کے لوگوں کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں یا اہم شخصیتوں؍مقامی سماجی کارکناں کو بھی بطور گواہ پیش ہونے کی اجازت دی جائے ، سماعت کے نتیجہ سے عرضی گزارکو تحریری طورپر اسی وقت آگاہ کیا جائے تاکہ اگردعوی مسترد ہوتا ہے یا دستاویزمیں کوئی کمی ہوتی ہے تو فوری اس کا تدارک ہوسکے اور ہر شخص کو اپنا دعوی ثابت کرنے کے لئے مزید مواقع دیئے جائیں اور دستاویز کو جمع کرنے کے لئے مناسب مہلت بھی فراہم کی جائے ، یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ چونکہ متاثرین کی اکثریت ناخواندہ ہیں اور ان میں ایک بڑی تعدادخواتین وبچوں کی ہیں اس لئے سماعت کے دوران انہیں اپنے وکیل کے ہمراہ حاضرہونے کی اجازت ملنی چاہئے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص دستاویزات اور زبانی شہادت کے بعد بھی اپنا دعویٰ ثابت نہ کرسکے اور اپنا خاندانی شجرہ ثابت کرنے میں ناکام رہے تو این آرسی کی دفعہ 23کے ضابطہ کے تحت اس کا ڈی این اے کرایا جائے مطالبہ میں یہ بھی کہا گیا کہ یکم مئی 2018کے سرکلر کے مطابق بہت سارے دستاویزات کو کمزوردستاویزقراردیدیا گیا ہے بہت سے افراد اور خاص طورپر خواتین اور بچوں کے نام صرف اس لئے این آرسی میں شامل نہیں کئے گئے کہ کیونکہ انہوں نے پنچائت یا اسکول کا سرٹفکیٹ جمع کیا تھا جسے کمزوردستاویز قراردیدیا گیا ہے مطالبہ میں کہا گیا کہ اس طرح کے معاملات میں ان کے خاندانی شجرے کا پتہ لگانے کے لئے ضلع مجسٹریٹ کی تحقیقاتی ٹیم (DMIT)کی رپورٹ پر بھی غورکیا جاناچاہئے ، یہ اہم مطالبہ بھی کیا گیا کہ جن کو فارینرز ٹرینونل ہندوستانی شہری قراردیدیا ہے اور جن کا نام این آرسی میں بھی شامل ہے ان کے اہل خانہ کانام بھی این آرسی میں شامل کیا جائے اور این آرسی کی تیاری کے عمل میں شہریت قانون 1955کی دفعہ 3پر پوری طرح عمل کیا جائے ، مسٹر پرتیک ہزیلا سے جمعیۃعلماء آسام کے وفدکی ملاقات مثبت رہی اور اسے یہ یقین دلایا گیا کہ ہر شخص کو شہریت ثابت کرنے کا بھرپورموقع دیا جائے گا اور یہ کے اس عمل میں شفافیت اور ایمانداری برتی جائے گی ،
واضح ہوکہ پرتیک ہزیلاسے ملاقات کے فورابعد مولانا مشتاق عنفر دہلی کے لئے روانہ ہوگئے جہاں آج آسام شہریت کے تعلق سے پانچ الگ الگ معاملوں کی سماعت ہونی ہے یہاں وہ سب سے پہلے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی سے ملاقات کرکے آسام کی تازہ صورت حال سے انہیں آگاہ کریں گے بعدازاں ان معاملوں کی پیروی کررہے وکلاء سے بھی وہ گفت شنید کریں گے ۔
Comments are closed.